ملنا دشوار ہوگیا اتنا
راستہ خارہوگیا اتنا
کیوں ترے سامنے نہیں ٹپکا؟
اشک خوددار ہوگیا اتنا
بے خوابی کا سبب خواب ہی ہیں
ذہن بیدار ہوگیا اتنا
لوگ آنے لگے پرسہ دینے
ہجر اخبار ہوگیا اتنا
دل اسے بے وفا ’سمجھتا‘ ہے
پست کردار ہوگیا اتنا
یہ تسلی یہ دلاسے تیرے
کب سے تو یار ہوگیا اتنا
کون ایلی کی صدا پر ٹھرے
شھر اغیار ہوگیا اتنا
(ایلی نقوی)