اچکتی سی نظر پڑی اور زوردار قہقہہ بےساختہ منہ سے نکل گیا۔۔۔ پھر منہ پر ہاتھ رکھے دونوں تیزی سے کھسیانی ہنسی ہنستے آگے بڑھ گئے۔۔۔ وہ منظرہی ایسا تھا۔۔۔ حرامی بھوک سے بلک بلک کر روئےچلا جا رہا تھا۔۔۔۔ ماں کی چھاتیوں کو پیاس کے مارے پپڑیوں جیسے خشک پڑتے ہونٹوں سے ٹٹول رہا تھا۔۔۔ نجانے بھکارن کب سے سوئی پڑی تھی۔۔۔ شاید بہت تھک گئی تھی۔۔۔ میلے کچیلے بچے کو سڑک کنارے دودھ پلاتے پلاتے ایسی مدہوشی کی نیند سوگئی کہ اسے اٹھی ہوئی قمیض سے ننگا بدن ڈھانپ لینے کا ہوش بھی نہ رہا تھا۔۔۔ بڑی دیر سے آتےجاتے راہگیر قریب سے گزرتے نگاہ بھر کے برہنگی کا یہ کھلا مظاہرہ دیکھتے، ٹھٹھک کر رکتے، نظروں کو اس تیزی سے سرد پڑتی شام میں چند گھڑیوں سینکتے، پھر اچانک منہ بنا کر تیزی سے بےغیرت بھکارن کے کرتوتوں پر لاحول پڑھتے تھتھکارتے گزرتے جارہے تھے۔۔۔ دبے دبے قہقہوں میں مسلی ہوئی سے دبی دبی آہوں اور سختی سے بھنچے ہوئے دانتوں میں چبائی ہوئی چھالیہ کی طرح جکڑی خدا سے مانگی ہوئی پناہ کے اس تواتر میں بچے کا بےہنگم شور گونگا پڑچکا تھا۔۔۔ ان میں ایک برقعہ پوش عورت بھی تھی۔۔ بھکارن پر نگاہ پڑتے ہی اپنے برقعے میں مزید سمٹ گئی۔ انہی راہگیروں میں ایک وہ بھی تھا جو پان کی دکان پر دھاگے سے ٹنگے ہوئے ادھ مرے لائیٹرسے سیگرٹ جلانے کے بہانے بڑی دیر سے کھڑا تھا ۔۔۔ لایئٹر تھا کہ جل کے نہیں دے رہا تھا۔۔۔ وہ کنکھیوں سے کئی بار اس بے غیرت بھکارن کو تاڑچکا تھا۔۔۔ وہ وہاں ایک آدھ گھنٹے ایسے ہی کھڑا رہنے کے لئیے ہر روز ایسا ہی کوئی بےتکا سا بہانہ تلاش کرلیتا۔۔۔ کچھ دیر تو وہ بھکارن کو اپنے گندے میل بھرے ناخنوں سے سر کے گرد اٹے الجھے ہوئے بالوں کو کھجاتے دیکھتا۔۔۔ کچھ دیر وہ کبھی پاس پڑے اس غلیظ کپڑے سے وہیں بچے کا پاخانہ پونچھنے لگتی جواس قدر پینوند زدہ تھا کہ غلاظت اس میں اپنی بو سمیت گھل سی جاتی۔۔۔ بھکارن اور اسکے بچے کی ان مکروہات کا یہ سلسلہ آخرکار تھمتا۔۔۔ بلآخر قدرت کے وعدے کے عین مطابق راہگیر کواسکے صبر کا پھل ملتا اور بھکارن بغل کھجاتی قمیض سرکاتی بچے کو دودھ پلانے فٹ پاتھ پر چھاتی کھولے بیٹھ جاتی۔۔۔ گزرنے والے بھلے چونکتے رہیں مگر وہ ایسی شانِ بےنیازی سے چوکڑی مارے بیٹھی رہتی گویا کوئی ملکہ عالیہ ہو۔۔۔ فٹ پاتھ اسکا تخت ہو اور آس پاس کھڑی اونچی عمارتیں اسکے تخلیہ میں پہرہ دیتی محلاتی خوابگاہ کی غلامگردشیں۔۔۔ بھکارن اپنے جوبن کی اس خیرات کو اسقدر فراخ دلی سے بانٹتی کہ بھٹکی ہوئی پھٹی پھٹی انکھوں کو ارد گرد موجود سب کچھ اسکی پھٹی ہوئی ایڑھیوں سے چپکی میل سے بھی زیادہ ہیچ نظر آنے لگتا۔۔۔ سڑک کے دوسری پار ٹکا ہوا راہگیر اس نظارے سے ایسا ہی مبہوت ہوتا جیسے ان چند گھڑیوں کے لئے وہ واقعی رانی بن گئی ہو۔۔۔ اس کے گرد بکھری غلاظت ۔۔۔ اسکے پیلے ناخنوں اور دانتوں میں اڑسا ہوا وہ گلتا سڑتا کل رات کا باسی بھوجن۔۔۔ راہگیر کی نظریں بھکارن کے ننگے پستانوں میں اسقدر پیوست ہو جاتیں کہ باقی سب اوجھل ہونے لگتا۔۔۔ نہ راہگیر رہتے نہ راستہ نہ ہی اردگرد کھڑی فلیٹوں کی ٹھنسی ٹھنسائی عمارتیں۔۔۔ اس وقت باقی سب کچھ کتنا بے وقعت ہو جاتا۔۔۔ ۔۔ یہاںتکہ بھکارن کا وہ حرامی بچہ بھی جس کا سر اس لمحے ماں کی عصمت پر واحد پردے کی طرح پڑا ہوتا۔۔جب کبھی بھوکا بچہ ماں کے سینے کو بھوک سے بھنبھوڑتا پورے نظارے کو ڈھانپ لیتا تویکدم راہگیر کو ایسا لگتا جیسا اس کے حصے کی بھوک کا نوالہ بچے نے اسکے منہ سے اچک لیا ہو۔۔۔ اس کا جی کرتا کہ چلا کرحرامی کو حرامی کہے۔۔۔ مگر لوگ حرامزادے بھانپ گئے تو؟ اک گھڑی بالشت بھر احساسِ گناہ اسے اپنے اندر کا حرامی دکھلا دیتا۔۔۔ پھر دوسرے ہی لمحے جب بھکارن اپنی جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی قمیض کو ٹھکانے لگا رہی ہوتی وہ سر جھٹک کر اسے دل میں گالی دیتا۔۔۔ بے حیا حرامزادی۔۔۔ سارا قصور اسی کا تو تھا۔۔۔ نہ وہ یہ حرامی بچہ جنتی نہ یہ سلسلہ شروع ہوتا۔۔۔ وہ اتنی ان پڑھ تو نہ تھی کہ ہر طرف سے اپنے بےحیائی کے سامان پر پڑتی ننگی نظروں میں ہوس کی تحریر نہ پڑھ سکتی۔۔۔ وہ یقینا جان بوجھ کر ایسا کرتی تھی۔۔۔ تعجب نہیں کہ کبھی کسی نے اسے اپنے منہ سے بھیک مانگتے نہ سنا تھا۔۔۔ لوگ قریب سے گزرتے چند سکے ضرور پھینک جاتے تھے خاص طور پر جب وہ بچہ کو دودھ پلانے میں مصروف ہوتی۔۔۔ ایسے ہی میں تو انہیں بھکارن کے بدں سے اٹھتی بدبو کی شدت کم ہوتی محسوس ہوتی۔۔۔ اور قریب سے گزرتے۔۔۔ اور بھیک پھنیکتے۔۔۔ یہی تو اسکا کاروبار تھا۔۔۔ یہی جھانسہ ۔۔۔ اسی کی آڑ میں وہ راہگیر جیسے سیدھے سادھے مردوں کی نظروں کو بہکاکر ان کے ہوش اڑا کر لوٹ کی کمائی کما لیتی ۔۔۔ پر آج تو اس نے حد کردی تھی۔۔۔ ایک ہی دن میں سب لوٹ لینا چاہتی تھی شاید۔۔۔ بھوکی سالی۔۔۔ رات پڑتے ہی راستہ ویران ہونے لگا۔۔۔ اپنی طنز آمیز مسکراہٹ سمیت پان والے نے کھوکھے کا شٹر دھڑام سے گرایا۔۔۔بھری ہوئی آنکھوں اور پیٹ سے ایک اونچا کھٹا ڈکار لیا اور اپنی راہ لی۔۔۔ اسے بھی جانا تھا۔۔۔ مگر اس کے قدم نجانے کیوں آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔۔۔ یہ جاگتی کیوں نہیں۔۔۔ روز کی طرح اپنی اس ملاقات کی آخری رسومات ادا کر کے یہ محفل برخاست کیوں نہیں کر دیتی۔۔۔ راہگیر کو ان چند مردوں سے شدید کوفت ہو رہی تھی جو شاید اسی کی طرح سب کے چلے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ اسے پھر بھکارن کی حرامزدگی پر شدید غصہ آنے لگا۔۔۔ بدکاری کی اس کھلی دعوت پر انکا یوں گِدھ کی طرح اسکے آس پاس منڈلاتے رہنا فطری تھا۔۔۔ اسے غصہ آرہا تھا۔۔۔ رقابت جیسے جذبات ذہن پر سوار ہونے لگے تھے۔۔۔ اسکا جی کرتا کہ وہ جھپٹ کر بھکارن کو دبوچ کر اپنی فتح کا اعلان کردے۔۔۔ بار بار سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بھی اسکے کان غصے اور ہوس کی حدت سے لال ہونے لگے تھے۔۔۔ وقت گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ سو اپنا دھیان بٹانے کے لئے وہ بھکارن کے بچے کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔بھوک سے نڈھال ریں ریں کرتا وہ بچہ۔۔۔ پتا نہیں حرامی تھا حلالی۔۔۔ پر وہ تواس بچے کو حرامی کے نام سے ہی جانتا تھا۔۔۔ پتا نہیں کس کا تھا۔۔۔یا پتا نہیں کس کس کا تھا۔۔۔ یہ خیال آتے ہی راہگیر کے منہ سے بے ساختہ قہقہہ نکل گیا۔۔۔ بڑا بےباک بے حیا سا قہقہہ۔۔۔ اسے اپناقہقہہ بالکل حرامی جیسا لگا۔۔۔ وہ ایسے ہی کھلکھلا کر ہنستا تھا۔۔۔ جب بھی اس کی ماں اسے ذرا سا جھلاتی تو وہ ایسے چیخ مار کر ہنستا جیسے اپنی فتح کا اعلان کرتا راہگیر کا منہ چڑاہ رہا ہو۔۔۔ حرامی بالکل حرامیوں کی طرح ہنستا تھا۔۔۔ راہگیر کو ایسے میں بھکارن کے بچے کا رونا تسکین دینے لگا تھا۔۔۔ رو بےغیرت رو۔۔۔ تو بھی ترس۔۔۔ تو بھی تڑپ۔۔۔ وہ بچے کونجانے کب تک کوستا رہا۔۔ اسے احساس بھی نہ ہوا کہ کب رقیب اسے حرمی کہہ کر کوستےاٹھ کر چلے گئے۔۔۔ شاید یہ سوچ کر کہ کل ائیں گے۔۔۔ دور دور تک اب کوئی نہیں تھا۔۔۔ سوائے اسکے، بھکارن کے اور بلکتے بچےکے جو ہو کر بھی نہیں تھا۔۔۔۔ راہگیرموقع غنیمت جانا اور تیزی سے بھکارن کے ننگے بدن پر اس بھوک بلے کی طرح لپکا جوتھوڑی دیر پہلے تک اپنی منحوس آواز میں رو رہا تھااوراب کچرے کے ڈبے میں حرکت ملتے ہے اس پر پل پڑا تھا۔۔۔ سیاہی یکایک بڑھ گئی۔۔۔ نہ وہ کچھ دیکھ پا رہا تھا نہ کوئی اسے۔۔۔ بھکارن کا بدن چھوتے ہی ایک سنسنی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔۔۔ بچے کا منہ اب تک ماں کی پرف کی طرح ٹھنڈی یخ اکڑی ہوئی چھاتیاں ٹٹول رہا تھا۔۔۔ وہ مر گئی تھی۔۔۔ وہ کیسے مر سکتی تھی۔۔۔ اس گھڑی میں۔۔۔۔اس کوبھی ابھی مرنا تھا۔۔۔ اس غنیمت کی گھڑی میں۔۔۔ کراہت سے اس نے لاش کو پرے دھکیلا۔۔۔ بچہ شاید سمجھا ماں جھلا رہی ہے۔۔۔کھلکھلا کر زوردار قہقہہ لگایا۔۔۔ اتنا زوردار کہ راہگیر تڑپ کراور پیچھے ہٹا ۔۔۔ وہ بری ظرح لرزنے لگا تھا۔۔۔ اور بچے کے حلق سے عجیب سی مکروہ آواز بلند ہونے لگی تھی۔۔۔ وہ تکلیف میں تھا مگر ہنسے جا رہا تھا۔۔۔ حرامی جیسے طنز کس رہا تھا۔۔۔ راہگیر کو لگا جیسے بھکارن کی برہنہ لاش جھول رہی ہے۔۔۔ اسے جھٹکے لگ رہے ہیں۔۔ بچہ اور زور سے مکروہ آواز میں ہنسنے لگا۔۔۔ شاید زلزلہ آرہا تھا۔۔۔ یا بھکارن اپنے ننکے زور زور سے جھولتے مردہ بدن سے اس پر طنز کستی خاموش قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔ اسی لمحے قریب کھڑی مکروہ قہقہوں والے حلالیوں کی سب مغرور عمارتیں ایک کے بعد ایک کھٹی ڈکاریں بھرتی کھوکھے کے شٹر کی طرح دھڑام سے زمیں بوس ہونے لگیں۔۔۔وہ سب چلا رہے تھے۔۔۔ رو رہے تھے۔۔ ۔راہگیر کو لگا جیسے زمین اسکے گناہ سے لرز اٹھی ہے۔۔۔ مگر وہ تو اسے جھولا جھلا رہی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔اور بھکارن کا وہ حرامی بچہ کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔۔۔ حرامی۔۔۔
ساجی